غزہ میں جنگ بندی تعطل کا شکار، انسانی بحران مزید شدت اختیار کرگیا

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے پر بات چیت بدھ کو تعطل کا شکار رہی جبکہ حماس کے زیرانتظام غزہ میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔

حماس، قطر اور مصر کے مذاکرات کار، لیکن اسرائیل نہیں آئندہ ہفتے سے شروع ہونے والے ماہِ رمضان سمیت 40 روزہ جنگ بندی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کو حماس پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی شرائط کو تسلیم کرے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل اس حوالے سے تعاون کر رہا ہے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی کے لیے ’ایک معقول پیش کش‘ کی گئی ہے۔‘

جو بائیڈن نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ معاملہ ابھی حماس کے ہاتھ میں ہے،‘ انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر رمضان کے دوران بھی غزہ میں لڑائی جاری رہی تو یہ ’بہت خطرناک‘ ہوگا۔

امریکہ فکرمند ہے کہ غزہ کا تنازع مشرق وسطیٰ میں بھی پھیل سکتا ہے، خاص طور پر ایران کے حامی حوثیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں بحری جہازوں پر حملوں سے صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

ادھر حوثیوں کے مال بردار بحری جہاز پر ایک تازہ حملے میں کم سے کم دو ملاح ہلاک ہو گئے ہیں۔

امریکی اور برطانوی حکام کے مطابق یمنی گروپ کی جانب سے دنیا کی مصروف ترین سمندری گزرگاہ میں بحری جہازوں پر حملوں کی مہم شروع کرنے کے بعد یہ پہلی ہلاکت کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔


اگرچہ حماس نے قاہرہ مذاکرات میں شریک رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم گروپ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ’جنگ بندی یرغمالیوں کی رہائی سے قبل ہو جانی چاہیے۔‘ 

ان عہدیداروں کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ’اسرائیلی افواج غزہ سے نکل جائے اور اپنے گھر بار چھوڑ کر غزہ سے جانے والے تمام باشندوں کی واپسی بھی ہونی چاہیے۔‘

ذرائع نے اس سے قبل کہا تھا کہ ’اسرائیل قاہرہ مذاکرات سے دُوری اختیار کر رہا ہے کیونکہ حماس نے زندہ یرغمالیوں کی فہرست فراہم کرنے سے انکار کیا ہے۔‘ 

دوسری جانب حماس نے کہا ہے کہ ’غزہ میں جنگ بندی کے بغیر یہ ناممکن ہے کیونکہ یرغمالیوں کو مختلف جنگی علاقوں میں رکھا گیا ہے۔‘

 

Comments

Popular Posts